(ایجنسیز)
نائجیریا میں حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ 'بوکو حرام' نامی شدت پسند تنظیم کی جانب سے اغوا کی جانے والی 200 سے زائد طالبات میں سے چار اغواکاروں کی تحویل سے فرار ہوگئی ہیں۔
نائجیریا کی ریاست بورنو کے کمشنر برائے تعلیم نے چاروں طالبات کے فرار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب بھی 219 طالبات 'بوکو حرام' کی تحویل میں ہیں۔
کمشنر نے صحافیوں کو طالبات کے فرار سے متعلق تفصیلات بتانے سے معذرت کی ہے۔
حکام کے مطابق شدت پسندوں نے 14 اپریل کو ریاست بورنو کے ایک دور دراز شمال مشرقی گاؤں چیبوک کے ایک سیکنڈری اسکول کا محاصرہ کرکے وہاں امتحانی پرچہ دینے والی 276 طالبات کو یرغمال بنالیا تھا۔
بعد ازاں شدت پسند ان طالبات کو ٹرکوں میں سوار کرکے اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ ٹرکوں میں سوار کیے جانے اور سفر کے دوران 53 طالبات اغواکاروں کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔
لیکن ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود 200 سے زائد باقی ماندہ طالبات کی رہائی عمل میں نہیں آسکی ہے۔
گزشتہ
روز نائجیرین فوج کے ایک اعلیٰ افسر ایئر مارشل ایلکس بادے نے دعویٰ کیا تھا کہ فوج کو اس مقام کا علم ہے جہاں شدت پسندوں نے ان طالبات کو رکھا ہوا ہے۔
تاہم ایئر مارشل بادے کا کہنا تھا کہ طالبات کی زندگیوں کو لاحق خدشات کے پیشِ نظر ان کی رہائی کے لیے کسی فوجی کارروائی کا امکان نہیں۔
نائجیرین حکام کو اندیشہ ہے کہ طالبات کو رہا کرانے کے لیے کسی فوجی کارروائی کی صورت میں شدت پسند انہیں قتل کرسکتے ہیں۔
شمال مشرقی نائجیریا کے مسلمان اکثریتی علاقے میں لگ بھگ پانچ سال قبل جنم لینے والی 'بوکو حرام' کی کارروائیوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ نائجیریا کی حکومت کو ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران تنظیم کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور جنگجووں نے دیہات پر حملے کرکے وہاں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
'بوکو حرام' نے حالیہ دنوں میں نائجیریا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ہونے والے ہلاکت خیز بم حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔